مولانا ذوالفقار علی دیوبندی اور عربی ادب

از: مولانامدثر جمال تونسوی‏، (فاضل :جامعہ دارالعلوم، کراچی)

 

          مولانا ذوالفقار علی، شیخ الہندمولانامحمودحسن کے والد محترم ہیں ۔ سلسلہٴ نسب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔۱۲۲۸ھ میں دیوبندمیں پیداہوئے ۔ بانیانِ دارالعلوم دیوبند میں شمار ہوتے ہیں ۔ متوسطات سے اعلیٰ درجے تک،علماء دہلی سے تعلیم حاصل کی ۔ شاہ محمداسحاق محدث دہلوی کے نامور شاگرد مولانا مفتی صدرالدین آزردہ اور مولانا مملوک العلی نانوتوی آپ کے مشہور اساتذہ ہیں؛بلکہ مولانا مملوک العلی صاحب سے ہی دہلی کالج میں زیادہ تر علوم وفنون کی تکمیل کی۔ عربی زبان وادب پر ماہرانہ دسترس کے ساتھ مغربی علوم اور انگریزی سے بھی خوب واقف تھے۔ فراغتِ تعلیم کے بعد بریلی کالج میں پروفیسر مقرر ہوئے اور اعلیٰ تعلیمی وانتظامی کارکردگی کی بنا پر ڈپٹی انسپکٹر مدارس وتعلیم مقرر ہوئے۔ زندگی کا بڑا حصہ اسی خدمت میں گزارا۔ آخر عمر میں دیوبند ہی رہے۔۱۳۲۲ھ میں بعمر۸۵ سال انتقال ہوا۔ عربی زبان وادب میں آپ کے مقام کا تعارف کراتے ہوئے تاریخ دارالعلوم دیوبند میں لکھا گیا ہے:

          ”عربی زبان وادب پر بڑی دسترس تھی ،دیوانِ حماسہ کی شرح تسہیل الدراستہ ،دیوان متنبی کی شرح تسہیل البیان،سبع معلقات کی شرح التعلیقا ت علی السبع المعلقات، قصیدہ بانت سعاد کی شرح ارشاد اور قصیدہ بُردہ کی شرح عطر الوردہ اردو میں تحریر فرمائیں ۔ مولانا نے ان شروح میں عربی کے غریب اور مشکل الفاظ اور محاورات کا ایسا سلیس وبامحاورہ ترجمہ اور ایسی دلنشین تشریح کی ہے،جس کی بدولت عربی ادبیات کی یہ سنگلاخ کتابیں طلباء کے لیے نہایت سہل اور آسان ہو گئی ہیں۔ معانی وبیان میں تذکرة البلاغت اور ریاضی میں تسہیل الحساب ان کی یاد گارہیں“(تاریخ دارالعلوم دیوبند ،ج۱، ص ۱۲۴)

          مولانا جس وقت مدارس وتعلیم کے ڈپٹی انسپکٹر مقرر ہوئے، اس وقت ہندوستان پر برطانیہ کی حکومت تھی اور برطانوی حکومت اگرچہ ہر لحاظ سے اہل ہند کو عموماً اور اہل اسلام کو خصوصاً کم سے کم تر پوزیشن میں رکھنا چاہتی تھی؛ مگر مولانا کے اس عہدے پر فائز ہونے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی مولانا کے کمالاتِ علمیہ اور وجاہت وعزت سے حددرجہ متاثر تھے، جس بنیاد پر مولانا کو یہ اہم علمی عہدہ سپرد کیا گیا ۔ چنانچہ فرانس کا مشہور مصنف”گارستان دستاسی“مولانا کے متعلق لکھتا ہے کہ :” وہ دہلی کالج کے طالب علم تھے ،چند سال کے لیے بریلی کالج میں پروفیسر ہو گئے،۱۸۵۷ھ میں میرٹھ میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس تھے،مسٹر ٹیلر ان سے واقف تھے،ان کا بیان ہے کہ ذوالفقار علی ذہین اور طباع ہونے کے علاوہ فارسی اور مغربی علوم سے بھی واقف تھے،انہوں نے اردو میں تسہیل الحساب کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ،جو بریلی میں۱۸۵۲ء میں چھپی ہے“(حوالہٴ بالا)

          مولانا کو عربی ادب سے خاص شغف اور اس فن میں کمال حاصل تھا۔ نظم ونثردونوں اصناف کے ماہر تھے ۔ آپ کا کلام عرب العرباء کی یاد دلاتا ہے؛ البتہ نثر کی بہ نسبت شعروشاعری اور نظم کا عملی ذخیرہ زیادہ چھوڑا ہے۔۱۳۰۷ھ میں عربی زبان میں ایک رسالہ بنام”الھدیةُ السَّنیة فی ذکرِ المدرسةِ الاسلامیةِ الدیوبندیة“ لکھا ،جس میں بزرگانِ دارالعلوم دیوبند کے اوصاف وکمالات اور سرزمینِ دیوبند کی خصوصیات پر بڑے لطیف اور ادیبانہ انداز میں تبصرہ کیا ہے۔ اس رسالے میں صنف مبالغہ سے خوب کام لیا ہے۔ قصبہٴ دیوبند کی تعریف میں جو کچھ رقم کیا ہے، اس کا یہ حصہ قابل ملاحظہ ہے :”کُوْرَةٌ قدیلمٌ وقَصْبَةٌ عَظیمةٌ، مدینةٌ کریمةٌ وبَلْدَةٌ فَخِیْمَة، کأنَّھا أولُ عُمرانٍ عُمِرَ بَعْدَ الطُّوفَانِ، ذاتَ المَعَاھِدِ الوَسیلةِ والمساجدِ الرفیعةِ والمَعَالِمِ المشھورةِ والمقابرِ المَزُوْرَةِ والآثارِ المَحمودةِ والأخبارِ المَسْعُودَةِ وأبْنِیَةٍ مَرْصُوْصَةٍ وأمْکِنَةٍ مَخْصُوْصَة“( حیات شیخ الہند ص ۱۳)

          قصبہٴ دیوبند کی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہاں مسلمانوں کے اشراف خاندانوں میں عثمانی نسب کے شیوخ کی کثرت تھی ۔ اسی بات کو بتلانے کے لیے حضرت عثمان غنی کی شان وتوصیف میں جوکلمات لائے ہیں، اس میں تمام اوصاف کوکس خوبصورت پیرائے میں ذکرکیاہے: ”وَالأشْرَافُ أکْثَرُھُمْ مِنْ وَلَدِ الشَّعِیْدِ، الشَّھِیْدِ، الصَّابِرِ، الشَّاکِرِ، السَّخِي، أنْدَاھُمْ یَدًا وأَقْرَبُھُمْ الٰی رسولِ اللہ صلى الله عليه وسلم نَسَبًا ومحتدًا وأصلاً محفدًا، مُجھّزُ جیشِ العُسْرَة، ثَالثُ الخُلَفَاءِ وَالعَشَرَةِ المُبَشَّرَةِ، مَن ھَاجَرَ ھِجْرَتَیْنِ وَفَازَ بِالخُطْبَتَیْنِ سَیِّدُنا أبی عَمْرُ وعثمانُ ذی النورَیْنِ رضی اللہُ عنہ وعَنِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابعین“( حیات شیخ الہند ص۱۲)

          مولانا مرحوم کی تحریر میں سلاست ،روانی اور زور بیان کے ساتھ حقائق وواقعات کی صحیح منظر کشی کا عنصر پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔ الہدیة السنیةمیں حضرت نانوتوی،جو عمر میں آپ سے چھوٹے تھے اور پہلے وفات پا گئے تھے ،اُن کے متعلق جو کچھ اس رسالے میں تحریر فرمایا، اُس کے چنداشعارملاحظہ ہوں :

یَا قَاسِمَ الْخَیْرِ مَنْ لِلْعِلْمِ وَالدِّیْن              اذَا ارْتَحَلْتَ وَ ارْشَادٍ وَّ تَلْقِیْن

اے قاسم الخیر!جب آپ رحلت کرگئے تو علم ،دین اور ارشادوتلقین کا کون کفیل ہوگا۔

یَا قَاسِمَ الخیرِ! مَنْ لِلطَّارِقِیْنَ وَمَنْ                   لِلضَّارِعِیْنَ مَکْرُوْب ومَحْزُوْن

اے قاسم الخیر!اب مہمانوں،بے وسیلہ سائلوں،غم زدوں اور بے چینوں کا کون کفیل ہوگا۔

یَا قَاسِمَ الخَیْرِ! اِسْمَعْ مَنْ لِکُربَتِنَا          یَا قَاصِمَ الضَیْرِ قُلْ مَنْ لِلْمَسَاکِیْن

اے قاسم الخیر!سن توسہی،اے نقصان کی تلافی کرنیوالے تو ہی کہہ! اب مسکینوں کاکون کفیل ہوگا۔

مَنْ لِلْمَدَارِسِ، مَنْ لِلْوَعْظِ، مَنْ لِھُدَیً      لِلنِّکَاتِ تَوْضِیْحٍ وَتَبْیِیْن

          مدارس ،وعظ وہدایت ،نکتہ سنجی اور توضیح وتشریح کا کون کفیل ہوگا۔

مَنْ لِلشَّریْعَةِ أوْ مَنْ لِلطَّرِیْقَةِ أوْ   مَنْ لِلْحَقِیْقَةِ اِذَا رَسِیْتَ فِی الطِّین

          شریعت،طریقت اور حقیقت کا محافظ کون ہوگا؛ جب کہ توزیرزمین مقیم ہوگیا۔

سَقٰی الالٰہُ ضَرِیْحاً أنْتَ سَاکِنُہ              وَیَرْحَمُ اللہُ مَنْ یَمْدُدْ بِتَأمِیْن

          اللہ تعالیٰ اس قبر کو سیراب رکھے جس میں آپ سکونت پذیر ہیں اور ان پر بھی اللہ کی رحمت ہو جو آمین کہہ کر(اس دعا میں میری) اعانت کرے، مولانا مرحوم کے آثارِ ادبیہ میں الہدیة السنیة اور ادبی کتب کی شروحات کے علاوہ ”قصائدِ قاسمی“ میں آپ کے دو عربی قصیدے موجود ہیں ۔ پہلا قصیدہ پچپن اشعار پر مشتمل ہے اور دوسرا تیرہ اشعار پر مشتمل ہے ۔دونوں قصائد سلطان ترکی عبدالحمید خان کی مدح میں لکھے گئے ہیں اور یہ اس وقت کی بات ہے، جب خلافت ترکیہ پر یلغار جاری تھی۔

          حضرت شیخ الہند نے تحریک ریشمی رومال کا جو خاکہ ترتیب دیا تھا، اس کا ابتدائی نقشہ بھی ان قصائد میں نظر آتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نقشہ ومنصوبہ انہی کابر سے شیخ الہند تک منتقل ہوا، جسے انہوں نے عملی جامہ پہنانے کی اپنی پوری سعی کی ۔ اس قصیدے میں انگریزوں کو خطاب کرتے ہوئے اور سلطان ترکی سے امداد وتعاون اور بیرونی یلغار کی دھمکی دیتے ہوئے کیسا پُر شوکت انداز اختیار کرتے ہیں:

انْ لَمْ تَتُبْ مَنْ جَفَاھَا قَدْ عَزَمْتُ عَلَی                انْ أسْتَعِیْنُ بِسُلْطَانِ الوَریٰ البَطْل

عَبْدِ الحَمِیْدِ أمانِ الخَائِفِیْنَ، مُبِیْدِ            الظَّالِمِیْنَ، سَدِیْدِ القَوْلِ وَالعَمَل

          ترجمہ:(۱)اے انگریز!اگر تم اپنی جفاوظلم سے باز نہ آئے تو میں نے بھی عزم کر لیا ہے کہ نڈر بادشاہ سے مدد طلب کروں گا۔

          (۲)(وہ)سلطان عبدالحمید ہے جو ڈرے ہوؤں کی جائے امان ،ظالموں سے بدلہ لینے والا اور قول وعمل میں سچا ہے۔

          اسی طرح سلطان ترکی اور ان کے لشکر کی ہمت بڑھاتے اور حوصلہ بلند کرتے ہوئے کہتے ہیں:

سَلُّوا سُیُوْفَکُمْ وَاللہُ نَاصِرُکُمْ       عَلی الطُّغَاةِ مِنَ الأوْغَادِ وَالسِّفْل

حَتَّامَ حِلْمُکُمْ یُغْرِیْھِمْ وَالٰی                   مَتٰی سُیُوْفُکُمْ فِی الْجَفْنِ وَالْخُلَل

          ترجمہ:(۱)اپنی تلواریں سونت لو اور ان سرکش کمینے اور گھٹیا لوگوں کے مقابلے میں اللہ ہی تمہارا مدد گار ہے۔

          (۲)تمہاری بردباری کب تک انہیں ایسی حرکات پر ابھارتی رہے گی اور کب تک تمہاری تلواریں خوبصورت نیاموں میں رہیں گی۔

           اہل ترکی روس اور دیگر حملہ آور قوتوں سے عملی طور پر میدانِ جہاد میں نبردآزما تھے ،قربانیاں پیش کررہے تھے؛ جب کہ یہ حضرات ہندوستان میں ان سے بہت دور بیٹھے تھے اور دلی طور پر ہی نہیں،مالی واخلاقی امداد میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی؛ لیکن عملی جہاد اور میدانِ جہاد سے باہر رہنے میں بہت فرق ہوتا ہے؛ اس لیے مولانا نے باوجود ترکی بہادروں کی مدح وستائش اور تحریض وترغیب کے اس پہلو سے نظر نہیں چرائی،اپنی معذرت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

عُذْرًا فَضْلُکُمْ وَالشِّعْرُ بَیْنَھُمَا               فَرْقٌ جَلِيٌ وَأیْنَ الْبَحْرُ مِنْ وَشَل

          ترجمہ:معذرت!تمہاری فضیلت(یعنی عملی جہاد کی فضیلت)اور میری شعر گوئی،ان دونوں میں تو واضح فرق ہے ،بھلا قطرے کی سمندر کے مقابلے میں کیا حیثیت؟

          دوسرا قصیدہ بھی بھرپورآہنگ اورشجاعتِ ادبیہ سے معمور ہے۔ اس میں سلطان عبدالحمید خان کے جہادی جذبے اور مجاہدین کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کیا گیاہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کریں:

وَلَطَالَمَا فَتَکَتْ جُیُوْشُک                کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیْد

وَقَتَلْتَھُمْ وَھَزَمْتَھُمْ                            وَقَطَعْتَھُمْ حَبْلَ الْوَرِیْد

وَلَقَدْ سَفَکْتَ دِمَائَھُمْ                 حَتّٰی جَرَیٰ بَحْرٌ جَدِیْد

ھَذَا وَسَیْفُکَ قَائِلٌ                            لِدِمَائِھِمْ ھَلْ مِنْ مَزِیْد

فَاقْطَعْ وُوٴُوْسَ الرُّوْسِ             رَأسَ الکُفْرِ مَلْعُوْنٍ طَرِیْد

          ترجمہ:کتنے عرصے سے آپ کے لشکر،ضدی کافروں کو سبق سکھا رہے ہیں ۔ آپ کے لشکر نے کافروں کو قتل کیا،انھیں شکست دی اور ان کی شہ رگ کاٹ دی ۔ تحقیق تو نے ان کا اتنا خون بہایا جس سے نیا سمندر رواں ہوگیا اورتیری تلوار اب بھی مزید خون کی پیاسی ہے۔ روسی کافروں کی گردنیں مارو ،یہ ملعون ہیں دھتکارے ہوئے ہیں۔

          مولانا مرحوم نے عربی دیوان کی جو شروحات تحریر فرمائیں، وہ آج بھی اپنے معیار پر برقرار ہیں اوراعلیٰ پائے کی شروحات میں شمار ہیں ۔ عربی ادب سے ادنی واقفیت رکھنے والا شخص بھی دیوانِ حماسہ،دیوانِ متنبی،سبع معلقات اور قصیدہ بانت سُعاد جیسی ادبی کتابوں کی اہمیت سے واقف ہے اور یہ بھی کہ یہ کتابیں کس قدر مشکل اورحل طلب کتابیں ہیں ۔ مولانا مرحوم نے اُس وقت؛ جب کہ اردو شروحات کا رواج ہی نہیں تھا، اِن مشکل و محنت طلب کتابو ں کو اردو زبان عطا کی ۔اسی لیے مصنف تاریخ دارالعلوم دیوبند نے لکھا”یہ سنگلاخ کتابیں طلباء کے لیے نہایت سہل اور آسان ہوگئیں“اِن شروحات کی تصنیف وتالیف کی ترتیب ِسنین کا علم تو نہیں ہو سکا؛ البتہ اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ” قصیدہ بُردہ“ کی شرح ،اِن شروحات کے بعد تحریر کی ۔قصیدہ بُردہ کی شرح بنام ”عطرالوردہ“ کے خطبے میں تحریر کرتے ہیں:

          ترجمہ:”امابعد!میرے اوقات کا اکثر حصہ اشعارِجاہلیت اور اسی نوعیت کے دیگر کم درجے کے دیوان کی شرح میں گزر گیا ۔مجھے اپنی عمر کے اس طرح کے بے فائدہ کاموں میں لگ کر ضائع ہونے پر افسوس ہوا اور مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول یاد آگیا ”آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے وہ لایعنی کاموں کو چھوڑ دے“پس میں تیار ہوگیا، علماء عرفاء کے ہاں یُمن وبرکت والے قصیدہ بُردہ کی شرح وتوضیح کے لیے اور میں نے اس توضیح وتشریح کا نام”عِطْرُ الوَرْدَ“ رکھا ہے“

          مولانا مرحوم کا انداز تشریح وتوضیح بہت نرالاہے، اس میں خاص وعام کی استعداد کو سامنے رکھا گیا ہے۔ محض اردو ترجمہ وتشریح پر اکتفا نہیں کیا گیا؛ بلکہ اہل علم اور ذی استعداد طلبہ کے لیے اردو سے پہلے عربی ہی میں مشکل الفاظ کے معانی اور پیچیدہ مقامات کو حل کیا ہے، گویا کتاب کی ایک نہیں دوشر حیں ہوگئیں ایک عربی،دوسری اردو میں ،قصیدہ برہ کی شرح عطر الوردہ کے خطبے میں تحریر فرماتے ہیں:

          ترجمہ:”پہلے میں نے عربی میں مشکل لغات کا حل اور محاورات کی توضیح پیش کی ہے، جس سے شعر کا مقصد واضح ہو جائے ،اس سلسلے میں ملا عبدالغنی القراباغی کی شرح سے استفادہ کیا ہے۔ پھر ہندی(اردو)زبان میں شرح کی ہے، جس سے پیچیدہ مقامات حل ہو جائیں اور مغلق مطالب طلبہ کے لیے آسان ہو جائیں اور مزید شوق ورغبت کا باعث ہوں، گویا یہ دوشرحیں ہیں،ایک عربی دوسری اردو میں“

          یہاں یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ مولانا مرحوم نے قصیدہ بُردہ کی جو شرح لکھی ہے، وہ محض علمی وادبی ذوق کی تسکین کے لیے نہیں؛ بلکہ اس کے پس منظر میں حبّ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک پر جوش دریا ہے، جو مولانا مرحوم کے قلب وجگر میں موجزن ہے اور مولانا مرحوم اپنی اس عاجزانہ خدمت کو تقربِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنی مغفرت کا بہترین وسیلہ وذریعہ قرار دیتے ہیں:

          ترجمہ:”(میں نے یہ شرح) اِس امید پر تحریر کی ہے کہ یہ خدمت میرے گناہوں کا کفارہ اور آخرت کا نیک توشہ بن جائے اور یہ امید کیوں نہ ہو کہ یہ قصیدہ نبی کریم سیدُالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سراسر مدح وتوصیف ہے“۔

          ”عِطر الوردہ“ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ: اَشعار میں جن واقعات کی طرف محض مجمل اشارہ ہو،مولانا مرحوم نے ترجمے کے ساتھ ان واقعات کو بھی جامع تفصیل سے ذکر کردیا ہے؛ تاکہ جو شخص ناواقفیت کی بنا پر اشارہ نہ سمجھ سکے، وہ واقعہ ملحوظ رکھ کر شاعرانہ اسلوب سے بھرپورانداز میں لطف اندوز ہو سکے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ترجمے کی خوبی اور مولاناکے حبّ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلک دیکھنے کے لیے چند اشعار محض ترجمے کے ساتھ پیش کردیں ۔ قصیدہ بردہ کے ان پانچ مشہور اشعار کا ترجمہ کس قدر عمدہ کیا ہے:

مُحَمَّدٌ سَیِّدُ الْکَوْنَیْنِ وَالثَّقَلَیْنِ       وَالْفَرِیْقَیْنِ مِنْ عَرَبٍ وَمِنْ عَجَم

نَبِیُّنَا الآمِرُ النَّاھِیْ فَلاَ أحد                  اَبَرَّ فِی قَوْلِ لاَمنہ ولا نَعَم

ھُوَ الحَبِیْبُ الَّذِیْ تُرْجٰی شَفَاعَتُہ  لِکُلِّ ھَوْلٍ مِنَ الأھْوَالِ مُقْتَحِم

دَعَا الی اللہِ فَالمُسْتَمْسِکُوْنَ بِہ     مُسْتَمْسِکُوْنَ بِحَبْلٍ غَیْرِ مُنْفَصِم

فَاقَ النَّبِیِّیْنَ فِیْ خَلْقٍ وَفِیْ خُلُقٍ    وَلَمْ یَدانُوْہُ فِیْ عِلْمٍ وَلا کَرَم

          (۱)یہ محمود ہردوفریق عرب وعجم کے ہیں،یعنی وہ مذکورات سابقہ میں ہر ایک کی طرف مبعوث ہیں اور یہ سب ان کی امت ہیں۔

          (۲)یہ سید الکونین(صلی اللہ علیہ وسلم)ہمارے نبی ہیں،جوہم کو امور ممنوعہ عنداللہ سے منع فرماتے ہیں اور امور مستحسنہ مثل فرائض وواجبات کی بجا آوری کا حکم فرماتے ہیں،ایسی طرح کہ ان کی مامورات اور منہیات قابل نسخ نہیں ہیں؛ کیونکہ آپ خاتم النّبیین ہیں(کس لطیف پیرا یے سے ختم نبوت کا اثبات کیا ہے ،فللّٰہ درالشارح)۔

          (۳)وہی ہے ایسا محبوب ،خداوندتعالیٰ شانہ کا کہ اس کی شفاعت کبریٰ کی امید کی جاتی ہے،ہرہول کے لیے ہولہائے روز قیامت سے،جس میں آدمی بزور داخل کیے جائیں گے ،یا ایسے ہول(ہولناک منظر)کے واسطے جو ان کو بزور مصیبت میں ڈالنے والی ہے۔

          (۴)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خدا کی طرف بلایا،سو جس نے ان کے طریق کو مضبوط پکڑ لیا تو اس نے ایسی مضبوط رسی کو پکڑ لیا، جو کبھی نہیں ٹوٹے گی،یعنی ان کا دین الی یوم القیامة باقی رہے گا اور نسخ اور تبدیل سے محفوظ؛کیونکہ آپ خاتم المرسلین ہیں(صلی اللہ علیہ وسلم)۔

          (۵)حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم حسن صورت وسیرت میں سب انبیاء علیہم السلام سے بڑ ھ کر ہیں اور وہ سب حضرات علیہم السلام آپ سے علم وکرم میں یعنی جمیع صفات ظاہر یہ وباطنیہ میں لگانہیں کھاتے۔

          قصیدہ بُردہ کو جو مقبولیت وشہرت عوام وخواص اور اہل علم واصحاب معرفت کے ہاں حاصل ہے وہ کسی سے مخفی نہیں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا مرحوم کی عربی واردو شرح سے اسے ایک نیا مقام ملا ہے،عوام الناس ہی نہیں، طلبہ وعلماء کے لیے بھی یہ شرح نہ صرف عربی ادب سے وابستگی ومعرفت پیدا کرنے کا بہترین خزینہ ہے؛ بلکہ اس کے مطالعہ سے عشقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی معطر لہریں مشامِ دل وجان کو تروتازہ کردیتی ہیں۔ درحقیقت مولانا کا ادبی پایہ جس طرح بلند تھا، اس طرح روحانی مقامات میں بھی بلند آشیانہ کے مکین تھے ۔مولانا مرحوم ڈپٹی انسپکٹر مدارس تھے۔ شاید اسی لیے اہل ہند میں عربی ادب کا ذوق پیدا کرنے کے لیے فنِ معانی وبیان میں”تذکرةُ البلاغت“ کے نام سے ایک کتاب اردو میں تالیف کی یہ کتاب آج کل دستیاب نہیں ہے؛ البتہ راقم السطور نے دوران تعلیم جامعہ دارالعلوم کراچی کے”کتب خانہ علمیہ“میں اس کا ایک نسخہ دیکھا ہے، جو واقعی اردو دان حضرات کو عربی ادب اور فنِ معانی وبیان سے متعارف کرانے اور اس فن میں بنیادی استعداد پیدا کرنے کے لیے بہت مفید تصنیف ہے ۔جگہ جگہ عربی ادب کی اصطلاحات کی وضاحت کے لیے اردو اساتذہ ٴ شعراء کے کلام سے مثالیں پیش کرکے طلبہٴ ادب کے لیے بڑی سہولت مہیا کردی ہے ۔میاں سیداصغر حسین صاحب ”حیات شیخ الہند“ میں تحریر کرتے ہیں:

          ”اور فنِ معانی وبیان کو نہایت خوبی سے اردو زبان میں دکھلا کر کمال کیا ہے؛ بلکہ زبان اردو میں سب سے پہلے مولانا ممدوح نے اس فن کو جاری کرکے دکھلایا ہے، ایسے باکمال حضرات اب کہاں پیدا ہوتے ہیں“(حیات شیخ الہند ص۱۵)

          کاش یہ کتاب چھپ جاتی اورہمارے دینی مدارس کے تعلیمی نصاب میں اس سے مددلی جاتی تو بہت مفید نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

واللّٰہ أعلم بالصواب

***

-------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3-4 ‏، جلد: 96 ‏، ربیع الثانی ‏، جمادی الاولی 1433 ہجری مطابق مارچ ‏، اپریل 2012ء